Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

سازشی نظریوں پر یقین کرنا خطرناک کیوں ہو سکتا ہے؟

  سازشی نظریوں پر یقین کرنا خطرناک کیوں ہو سکتا ہے؟ یورپ میں عورتوں کو جادوگرنی سمجھ کر انہیں مار ڈالنے سے لے کر یہ مفروضہ کہ فری میسن یورپی...

 

سازشی نظریوں پر یقین کرنا خطرناک کیوں ہو سکتا ہے؟

یورپ میں عورتوں کو جادوگرنی سمجھ کر انہیں مار ڈالنے سے لے کر یہ مفروضہ کہ فری میسن یورپی بادشاہتوں کا تختہ الٹنے کی سازش کر رہے ہیں، 20ویں صدی کے وسط میں رچرڈ ہاف سٹیڈر نے امریکی سیاست اور ثقافت میں ایک خوف کے ماحول کی تشخیص کی، جو مبالغے، شک و شبے اور سازشی تخیل کا ملغوبہ تھا۔

لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ دور ہی سازشی نظریات کا ’سنہری دور‘ ہے۔

 24 جون 2022 کو ’QAnon‘ سازشی نظریے کے نامعلوم رہنما نے ایک سال سے زیادہ عرصے میں پہلی بار آن لائن پوسٹ کی ہے۔

کیو اینان (QAnon) ایک امریکی تنظیم ہے جو طرح طرح کے سازشی نظریوں پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے پیروکار سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پرجوش حمایتی ہیں۔ سازشی نظریے ٹرمپ کے سیاسی برانڈ کی سب سے نمایاں خصوصیت رہی ہے جن میں پیزا گیٹ Pizzagate اور کیو اینان سے لے کر ’سٹاپ دا سٹیل‘ Stop the Steal اور نسل پرستانہ ’برتھر‘  birther تحریک تک شامل ہے جس کے تحت ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ اوباما امریکہ میں پیدا نہیں ہوئے۔

کیو اینان کے سازشی نظریات کے کلیدی موضوعات جیسے ’پیڈو فائلز،‘ ’گرومرز ،‘ مشکوک بینکرز‘ اور ’گلوبلسٹس‘ ایک خوفناک نیٹ ورک کا حصہ ہیں جو دائیں بازو کے مرکزی دھارے کا موضوعِ بحث بن گئے ہیں۔

سازشی نظریات پر زیادہ تر تبصروں میں کہا جاتا ہے کہ پیروکاروں کے پاس صرف غلط یا ناکافی معلومات ہیں اور یہ کہ اگر ان لوگوں کو حقائق فراہم کیے جائیں تو ان کی مدد کی جا سکتی ہے۔

لیکن جو بھی سازشی نظریہ سازوں سے بات کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ ان کے پاس تفصیلات یا کم از کم ’متبادل حقائق‘ کی کمی نہیں ہوتی۔

ان کے پاس کافی معلومات ہیں لیکن وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ اس کی تشریح کسی خاص طریقے سے کی جائے تاکہ وہ سب سے زیادہ سنسنی خیز محسوس ہوں۔

میری تحقیق اس بات پر مرکوز ہے کہ کس طرح جذبات انسانی تجربے پر اثر انداز ہوتے ہیں جن میں مضبوط عقائد بھی شامل ہیں۔

میری نئی کتاب میں دیے گئے دلائل اسی بات پر مرکوز ہیں کہ سازشی نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان احساسات کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو انہیں بہت زیادہ پرکشش بناتے ہیں اور کس طرح یہ احساسات ڈھالے جاتے ہیں کہ وہ عقیدت مندوں کو اپنے لیے مناسب لگیں۔

اگر ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی باتوں پر کیوں یقین کرتے ہیں تو ہمیں نہ صرف ان کے خیالات کے مواد کو دیکھنا ہو گا بلکہ یہ بھی کہ ان معلومات سے وہ کیسا محسوس کرتے ہیں۔

بالکل اسی طرح جیسے ایکس فائلز X-Files (ٹی وی شو) نے پیش گوئی کی تھی کہ انہیں ایسا ہونا چاہیے کہ سازشی نظریوں کے پیروکار ان پر یقین کرنا چاہیں۔

سوچ اور احساس

ایک صدی قبل امریکی ماہرِ نفسیات ولیم جیمز نے کہا تھا: ’جب انسان الجھن یا تذبذب کی حالت سے نکل کر کسی حل کی جانب آتا ہے تو یہ بات اس کے لیے خوشی اور راحت کا باعث ہوتی ہے۔‘ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو الجھن کسی کو پسند نہیں لیکن اعتماد یقینی طور پر اچھا محسوس ہوتا ہے۔

ولیم جیمز ایک ایسے مسئلے میں گہری دلچسپی رکھتے تھے جو آج کے لیے اہم ہے یعنی معلومات کیسی محسوس ہوتی ہیں اور دنیا کے بارے میں کسی خاص نظریے سے سوچنا کیوں پرجوش یا حوصلہ افزا ہو سکتا ہے وہ بھی اتنا کہ دنیا کو کسی اور نظریے سے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

جیمز نے اسے ’عقلیت کا جذبہ‘ قرار دیا ہے یعنی وہ احساسات جو سوچ کے ساتھ چلتے ہیں۔ لوگ اکثر سوچ اور جذبات کو الگ الگ سمجھتے ہیں، لیکن جیمز نے معلوم کیا یہ دونوں آپ میں جڑے ہوئے ہیں۔

مثال کے طور پر ان کا خیال تھا کہ سائنس دانوں کو اصل سنسنی نئی چیزیں دریافت کر کے حاصل ہوتی ہیں اور یہی چیز سائنس کو آگے بڑھاتی ہے لیکن چیزوں کے غلط ہونے کی فکر بھی ایسا ہی کرتی ہے۔

صرف دو فیصد کا لالچ

تو سازشی نظریہ کیسا لگتا ہے؟ سب سے پہلے یہ کہ سازشی نظریہ آپ کو محسوس کراتا ہے کہ آپ سب سے زیادہ سمجھ دار ہیں۔

ماہر سیاسیات مائیکل بارکون نے نشاندہی کی ہے کہ سازشی نظریے کے پیروکار اس چیز کو پسند کرتے ہیں جسے وہ ’بدنام علم‘ کہتے ہیں، یعنی ایسی معلومات جو غیر واضح ہیں یا انہیں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

درحقیقت کسی نظریے کا ماخذ جتنا زیادہ غیر واضح ہو گا اتنے ہی سچے پیروکار اس پر بھروسہ کرنا چاہتے ہیں۔ معروف پوڈ کاسٹ ’دا جو روگن ایکسپیریئنس (The Joe Rogan Experience) اسی چیز پر مبنی ہے۔ اس پاڈ کاسٹ میں ’سائنس دان‘ اپنے آپ کو اس بیابان میں واحد آواز کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح انہیں زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں ان کے ساتھیوں نے ہی مسترد کر دیا ہے تو یقیناً ان کے پاس کوئی کام کی بات ہو گی۔

98 فیصد سائنسدان کسی چیز پر متفق ہو سکتے ہیں لیکن سازشی ذہنیت کے حامل لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ باقی دو فیصد کے پاس ضرور کوئی راز ہو گا۔ ایسی باتوں پر یقین رکھنے کی وجہ سے سازش کرنے والے خود کو ’تنقیدی سوچ رکھنے والوں‘ سمجھنے لگتے ہیں جو دوسروں سے الگ تھلگ ہو گئے ہیں، بجائے اس کے کہ محنت سے کام کر کے حقیقت معلوم کریں۔

سازشی نظریے کے سب سے دلچسپ پہلوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ ہر چیز کو معنی خیز بنا دیتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک پہیلی کو بوجھنے میں کتنی خوشی ملتی ہے۔ جب آپ ورڈل، کراس ورڈ یا سوڈوکو مکمل کرتے ہیں تو اطمینان محسوس کرتے ہیں۔

لیکن یقیناً ان کھیلوں کا پورا مقصد یہ ہے کہ وہ چیزوں کو آسان بناتے ہیں۔ اسی طرح جاسوسی ڈرامے اور فلمیں بھی ایک جیسی ہوتی ہیں، جہاں سکرین پر تمام سراغ پہلے ہی موجود ہوتے ہیں۔

طاقتور کشش

لیکن اگر ساری دنیا کسی کھیل کی طرح ہوتی تو کیا ہوتا؟ سازشی نظریے آپ کو یہی فریب دیتے ہیں۔ اگر آپ ان پر یقین رکھتے ہیں تو تمام سوالوں کے جوابات پہلے سے موجود ہیں اور ہر چیز ہر چیز کے ساتھ فٹ بیٹھتی ہے۔ ساری دنیا ایک کھیل کی مانند ہے اور اس کے بڑے کھلاڑی شیطانی اور مکار ہوتے ہیں لیکن آپ کی طرح ہوشیار نہیں، کیوں کہ آپ ان کی چال سمجھ گئے ہیں۔

کیو اینان ایک بڑے لائیو ایکشن ویڈیو گیم کی طرح کام کرتا ہے جس میں ناظرین کو ترسا دینے والے سراغوں  سے تنگ کرتا ہے۔ اور ان کے پیروکار ہر تفصیل کو انتہائی اہم بنا دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کرونا کی تشخیص کا اعلان کیا تو انہوں نے اپنی ٹویٹ لکھا: ’ہم ایک ساتھ مل کر اس سے گزریں گے۔‘

“We will get through this TOGETHER.”

کیو اینان کے پیروکاروں نے اسے ایک سگنل کے طور پر دیکھا کہ ان کا طویل عرصے سے مطلوبہ مقصد حل ہو گیا ہے یعنی ہلیری کلنٹن کی گرفتاری اور ان کے مبینہ ناقابل بیان جرائم پر سزا کا عمل شروع ہونے جا رہا ہے۔

کیو اینان کے پیروکاروں کا خیال تھا کہ اس ٹویٹ میں لکھا گیا لفظ TOGETHER دراصل کوڈ ہے جسے TO-GET-HER پڑھا جا سکتا ہے اور ٹرمپ میں کرونا کی تشخیص اصل میں ’ڈیپ سٹیٹ‘ کو شکست دینے کے لیے ایک فال تھی۔

ٹرمپ کے عقیدت مندوں کے لیے یہ واضح سنسنی خیز حل کے ساتھ ایک بالکل تیار شدہ پہیلی تھی۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ سازشی نظریہ اکثر نسل پرستی، سیاہ فام مخالف نسل پرستی، تارکین وطن مخالف نسل پرستی، یہود دشمنی اور اسلامو فوبیا کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔

وہ لوگ، جو سازشیں کرتے ہیں یا ان کا استحصال کرنے کے لیے تیار ہیں، جانتے ہیں کہ یہ نسل پرستانہ عقائد جذباتی طور پر کتنے موثر اور طاقتور ہیں۔

یہ کہنے سے گریز کرنا بھی اہم ہے کہ سازشی نظریات محض غیر معقول یا جذباتی ہیں۔

فلسفی ولیم جیمز نے جو محسوس کیا وہ یہ ہے کہ تمام فکر کا تعلق جذبات سے ہے چاہے ہم دنیا کے بارے میں مفید طریقوں سے سیکھ رہے ہوں یا ہمارے اپنے تعصبات کی وجہ سے ہمیں گمراہ کیا جا رہا ہو۔ جیسا کہ ثقافتی نظریہ ساز لارین برلانٹ نے 2016 میں لکھا تھا: ’تمام پیغامات جذباتی ہوتے ہیں چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے آئے ہوں۔‘

سازشی نظریات ان کے پیروکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ خود کو ’کھلی آنکھوں والوں‘ کے طور پر تصور کریں اور باقی سب کو ’بھیڑ چال‘ والوں کے طور پر دیکھیں۔ لیکن غیرمنطقی طور پر یہ تصور خود فریبی کا باعث بنتا ہے اور پیروکاروں کو یہ پہچاننے میں مدد کرنا کہ یہ پہلا قدم ہو سکتا ہے۔

عقائد تھوپنے کے لیے عقیدت مندوں کو قائل کرنے کے صبر آزما کام کی ضرورت ہوتی ہے، انہیں قائل کیا جاتا ہے کہ دنیا صرف اکتاہٹ آمیز، زیادہ بے ترتیب اور اتنی کم دلچسپ جگہ ہے جس کی کسی نے امید کی ہو گی۔

سازشی نظریات کی اتنی مضبوط گرفت کیوں ہے اس کا ایک جواب یہ ہے کہ ان میں سچائی کی چمک ہے یعنی واقعی ایسے اشرافیہ ہیں جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ دنیا میں واقعی استحصال، تشدد اور عدم مساوات ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے انکار پر لکھی گئی ’کونسپیرسی تھیوری ہینڈ بک‘ میں ایک اہم نکتہ، جو ان نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک گائیڈ ہے، میں ماہرین نے کہا ہے کہ طاقت کے غلط استعمال کو بے نقاب کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شارٹ کٹس نہ لیں۔

اس حوالے سے پیش رفت کرنے کے لیے ہمیں صبر سے ثابت کرنا ہو گا کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے، تحقیق کرنے، سیکھنے اور شواہد کی سب سے قابل فہم تشریح تلاش کرنے سے ہی ایسا ممکن ہے نہ کہ سب سے زیادہ دلچسپ بات پر دھیان دینے سے۔

کوئی تبصرے نہیں