Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

کیا مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا تھا؟

  کیا مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا تھا؟ نور الصباح بیگم نے لکھا کہ ’کچھ عرصے کے بعد میں لیڈی ہدایت اللہ سے پھر ملی اور ان سے کہ...

 

کیا مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا تھا؟

نور الصباح بیگم نے لکھا کہ ’کچھ عرصے کے بعد میں لیڈی ہدایت اللہ سے پھر ملی اور ان سے کہا کہ ’سنا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کے گلے میں نشان تھے، دیکھیے اب تو ایوب خان کی حکومت بھی نہیں ہے، اب تو آپ مجھے بتا دیجیے کہ آیا محترمہ فاطمہ جناح کے گلے پر نشان تھے؟‘ تو لیڈی ہدایت اللہ نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ ان کے گلے پر نشان نہیں تھے کیوںکہ لیڈی ہدایت اللہ نے ہی محترمہ کو (وفات کے بعد) سب سے پہلے دیکھا تھا۔‘
شاکر حسین شاکر کے مطابق: ’مادر ملت کی موت کے متعلق 1971 میں کچھ انکشافات منظرعام پر آئے، یہ انکشافات محترمہ کی تجہیز و تکفین کرنے والی جماعت کے سربراہ 67 سالہ حاجی کلو اور تین عمر رسیدہ غسالوں نے کیے۔ بقول ہدایت اللہ عرف حاجی کلو: ’مجھے محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کی خبر خوجہ شیعہ اثنا عشری جماعت کے ایک شخص نے آ کر دی۔ میں اس کے بعد جماعت کے دفتر گیا جہاں مسلم چانڈیو نے مجھے تجہیز و تکفین کی تیاری کی ہدایت کی۔ تینوں غسال فاطمہ سید، فاطمہ قاسم اور فاطمہ بائی بچو اس خواب گاہ میں چلی گئیں جہاں مادر ملت کی لاش پڑی ہوئی تھی۔

’غسل کے دوران غسالوں نے دیکھا کہ محترمہ کے جسم پر گہرے زخم ہیں اور جگہ جگہ چوٹوں کے نشان ہیں، ہم خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے۔ غسالوں نے محترمہ کے جسم پر نشانات اور گہرے زخم دیکھ کر احتجاج کرنا چاہا اور معاملے کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے زبان کھولی لیکن کچھ لوگوں نے کہا کہ اس معاملے میں خاموشی اختیار کی جائے۔‘

حاجی کلو کا کہنا ہے کہ ’صبح کسی نے بتایا کہ مجھ سے پہلے کئی لوگ لاش دیکھ چکے ہیں جن میں ڈاکٹر واجد اور جناب اصفہانی بھی شامل تھے، کچھ بیگمات بھی شامل تھیں، میں خاموش ہو گیا کہ خدا جانے کیا مسئلہ ہے۔ بعد میں غسالہ فاطمہ سید نے مجھے بتایا کہ جب میں نے غسل کے لیے میت کا جائزہ لیا تو میری روح لرز گئی، مادر ملت کی گردن پر چار انچ سے زائد لمبا زخم تھا جس پر ٹانکے لگے ہوئے تھے، ان کے گھٹنے پر زخم تھا، دایاں رخسار سوجا ہوا تھا اور جسم نیلا ہو کر اکڑ گیا تھا، ان کی چادر اور لباس خون میں لت پت تھی اور خون کے خشک دھبوں سے کپڑا سخت ہو گیا تھا۔ میں نے محترمہ کے جسم پر زخموں کے بارے میں منہ کھولنا چاہا لیکن مجھے منع کر دیا گیا۔

’خون آلود کپڑے میں اپنے ساتھ اجازت سے گھر لے آئی تھی، ایک سال تک یہ میرے پاس رہے، جب سڑنے لگے تو میں نے ان کو اپنے گھر کے پاس پلاسٹک کی تھیلی میں دفن کر دیا۔ میں یہ کپڑے لائی تو میری جماعت کے لوگوں نے مجھے خوف دلایا کہ میں ان کا کسی سے تذکرہ نہ کروں، میں خوف زدہ تھی، میرا ضمیر بار بار مجھے مجبور کررہا تھا کہ میں وہ سب کچھ بتا دوں جو میں جانتی ہوں۔‘

ایک اور غسالہ فاطمہ بائی بچو نے محترمہ فاطمہ کے جسم پر زخموں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ محترمہ کے پیٹ میں ایک باریک سوراخ تھا جس سے متعفن پانی بہہ رہا تھا۔ ان کے جسم پر جگہ جگہ چوٹ کے نیل پڑے ہوئے تھے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے انہیں کسی نے زدوکوب کیا ہو۔


تیسری غسالہ فاطمہ قاسم نے بھی ان ہی تفصیلات کی تصدیق کی۔ ان شہادتوں سے یہی قیاس آرائی کی جا سکتی ہے کہ جب محترمہ شادی کی تقریب میں گئی ہوں گی تو کوئی ڈاکو پہلے سے کمرے میں داخل ہو چکا ہو گا اور ان کے واپس کمرے میں آنے کے بعد چھپ گیا ہو گا، جب وہ سو گئی ہوں گی تو نامعلوم شخص نے قیمتی زیورات حاصل کرنے کے لیے ان پر حملہ کر دیا ہوگا، کیونکہ محترمہ کو زیورات کا بہت شوق تھا اور قیمتی زیورات ان کے پاس موجود تھے۔

اس کے ساتھ یہ شبہ بھی بعید ازقیاس نہیں کہ چوں کہ وہ غصیلی عادت کی مالکہ تھیں اور گھریلو ملازمین ان سے ڈرتے تھے، انہیں اگر کسی ملازم کی دیانت داری مشکوک نظر آتی تو تحقیقات کراتی تھیں اور نکال دیتی تھیں، شاید کسی ملازم نے کسی رنجش کا بدلہ لینے کے لیے یہ حرکت کی ہو کیونکہ گھریلو حالات سے نجی ملازم بھی واقفیت رکھتے تھے۔
نور الصباح بیگم نے لکھا کہ ’جب لیڈی ہدایت اللہ واپس قصر فاطمہ پہنچیں اور کمرے کے نہ کھلنے پر پریشان تھیں تو ایک نوکر آیا جو فاطمہ جناح نے کچھ دن پہلے نکال دیا تھا اور اس نے لیڈی ہدایت اللہ سے کہا کہ میرے پاس ایک چابی ہے شاید یہ تالے کو لگ جائے۔ نوکر نے چابی دی، وہ چابی دروازے میں لگ گئی جس کے بعد لیڈی ہدایت اللہ نے تالا جوں کا توں دوبارہ بند کر دیا اور چابی اسی نوکر کو دے دی۔ میں نے لیڈی ہدایت اللہ سے بعد میں ایک ملاقات کے دوران پوچھا کہ سنا ہے کہ بعد میں وہ نوکر بھی غائب ہو گیا تھا تو انہوں نے کہاکہ ہاں وہ نوکر پھر نہیں آیا۔‘
مشہور صحافی اختر بلوچ نے اپنے ایک بلاگ ’قصہ فاطمہ جناح کی تدفین کا‘ میں لکھا ہے کہ ’جنوری 1972 میں غلام سرور نامی ایک شخص نے فاطمہ جناح کی وفات کے حوالے سے عدالت میں ایک درخواست سماعت کے لیے دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مجھے یہ تشویش ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کو کہیں قتل نہ کیا گیا ہو۔‘

مگر اختر بلوچ نے یہ نہیں بتایا کہ پھر اس درخواست کا کیا فیصلہ ہوا۔
محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال (یا قتل) کے ایک طویل عرصے بعد تک ان کی وفات کا معاملہ معمہ بنا رہا۔ 2003 میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور اٹارنی جنرل شریف الدین پیرزادہ نے اس وقت کے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی سے مطالبہ کیا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے قتل کے سلسلے میں قاضی فضل اللہ کی نگرانی میں جو انکوائری رپورٹ تیار ہوئی تھی اسے منظر عام پر لایا جائے۔

یہ انکوائری رپورٹ صدر ایوب خان کے اس وعدے کے مطابق تیار کی گئی تھی جو انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کے بھانجے مشہور ماہر قانون اکبر پیر بھائی سے ایک ملاقات میں کیا تھا۔ تاہم آج تک نہ تو یہ رپورٹ سامنے آئی اور نہ ہی قتل یا طبعی موت کے سوال کا کوئی جواب مل پایا۔

محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال پر جناب رئیس امروہوی نے لکھا:
خالی رئیس رنج شکستہ پری نہیں
رونا یہ ہے کہ ہمت پرواز بھی گئی
انجام کار قائداعظم کی ملک میں
آواز رہ گئی تھی سو آواز بھی گئی

کوئی تبصرے نہیں