سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیس میں دیکھیں گے کہ پارلیمانی پارٹی کو پارٹی سربراہ چلاتا ہے؟ ا...
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیس میں دیکھیں گے کہ پارلیمانی پارٹی کو پارٹی سربراہ چلاتا ہے؟ اس کیس میں پارلیمانی پارٹی کی کوئی ہدایات نہیں، ہم نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کے اختیار پر پارٹی سربراہ نے تجاوز کیا؟فل کورٹ پیچیدہ اور مشکل معاملات میں بنایا جاسکتا ہے، یہ معاملہ پیچیدہ نہیں ہے۔
جیو نیوز کے مطابق چودھری شجاعت اور پیپلزپارٹی کے وکیل میرٹ پر دلائل دیں گے، چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کی موجودہ بنچ ہی سماعت کرے گا۔ اسی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکمران اتحاد کی فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا مسترد کردی ہے، حکمران اتحاد نے عدالت سے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا کی کی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم نے معاملے کا جائزہ لیا، چودھری شجاعت اور پیپلزپارٹی کی فریق بننے کی درخواست منظور کرلی ہے، فاروق ایچ نائیک کو بھی سنیں گے، وکلاء میرٹ پر دلائل دینا شروع کریں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابھی ہم سب کو سنیں گے، اس کے بعد دیکھیں گے، فل کورٹ کے معاملے پر ہم آپ کو مزید سننا چاہتے ہیں، فل کورٹ کے حوالے سے ہم نے سب کے دلائل سننے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت 24 گھنٹے کیس سننے کو تیار ہے، میرٹ پر سننے کے بعد فیصلہ کرینگے کہ فل کورٹ بنے گا یا نہیں، نظرثانی کی درخواست سماعت کیلئے رکھتے ہیں تو آپ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ہم نے وزیراعظم کو پانچ رکنی بنچ کے ساتھ گھر بھی بھیجا ہے، تب آپ نے مٹھائیاں بانٹیں آج آپ دوسری طرف کھڑے ہیں۔ اگر معاملہ حد سے تجاوز ہوا تو فل کورٹ بنادیں گے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کی رولنگ کے خلاف کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا تھا، تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی آج دوبارہ سماعت کی ، جہاں سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر ڈپٹی سپیکر کے رولنگ کیخلاف فل کورٹ بنانے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
، اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کی تشکیل کے حوالے سے سماعت مکمل ہوگئی ، اب مشاورت کی جائے گی کہ کیس فل کورٹ سنے گی یا موجودہ بنچ ہی اس کیس کی سماعت جاری رکھے، اس حوالے سے فیصلہ ساڑھے 5 بجے سنایا جائے گا۔ قبل ازیں سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف کیس میں فل کورٹ بنانے کے معاملے پر وکلا کے دلائل ہوگئے، درخواست گزار پرویز الہی کے وکیل علی ظفر نے دوران سماعت دلائل دیے کہ آرٹیکل 63 اے پر عدالت پہلے ہی مفصل سماعتوں پر رائے دی چکی ہے، پارٹی سربراہ کو پارلیمارٹی پارٹی کی ہدایات پر ڈیکلریشن دینی ہوتی ہے، آرٹیکل 63 اے اور اسکی عدالتی تشریح بالکل واضح اور غیر مبہم ہے، عدالت پر مکمل اعتماد ہونا چاہیے۔
اس پر چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ ہم آپ کو کیس کے میرٹ پر نہیں سن رہے، آپ یہ بتائیں کہ ہمیں فل کورٹ بنانا چاہیے یا نہیں؟ وکیل علی ظفر نے بتایا کہ فل کورٹ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا ہے لیکن گزشتہ 25 سال میں فل کورٹ 3 یا 4 کیسز میں بنا ہے، گزشتہ سالوں میں فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا 15 مقدمات پر مسترد ہوئی۔ وکیل نے نشاندہی کی کہ فل کورٹ کے باعث عدالت کو دوسرا کام روکنا پڑتا ہے، کیا تمام عدالتی کام روک کر فل کورٹ ایک ہی مقدمہ سنے؟ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ فل کورٹ نہ بنانے سے دیگر مقدمات پر عدالت کا فوکس رہا جب کہ مقدمات پر فوکس ہونے سے ہی زیر التوا کیسز کم ہو رہے ہیں۔
اس سے پہلے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری رولنگ کیس میں حمزہ شہباز کے وکیل منصوراعوان کے دلائل مکمل کیے ، وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلے کے اس نکتے کا حوالہ دیا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ مسترد ہوجائے گا، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی ہدایت اور ڈیکلریشن دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ڈائریکشن دیتا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیکر رولنگ دی، آرٹیکل 63 اے کے اصل ورژن میں دو تین زاویے ہیں، پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں، 18ویں ترمیم سے پہلے آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کی ہدایات کی بات کرتا تھا، 18ویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا، پہلے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات میں ابہام تھا، ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے۔
حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کے خلاف ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے، اگر پانچ رکنی بنچ کو لگتا ہے ماضی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بنچ ہی فیصلہ کر سکتا، آرٹیکل 63 اے کے مختصر فیصلے میں پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی پر بحث موجود نہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 63 اے کی نظرثانی درخواستوں میں صرف ووٹ مسترد ہونے کا نکتہ ہے، پارلیمانی پارٹی ہدایت کیسے دے گی یہ الگ سوال ہے، ہدایت دینے کا طریقہ پارٹی میٹنگ ہوسکتی ہے یا پھر بذریعہ خط، میرے نزدیک مختصر فیصلہ بڑا واضح ہے۔
کوئی تبصرے نہیں